یہ خیال کہ معاشرتی انقلاب کتابوں کے ذریعے آتا ہے کسی خوش فہمی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ انقلاب کتاب کی وجہ سے نہیں ہمیشہ صاحب کتاب کی وجہ سے آیا ہے۔ ہر انقلاب کے پیچھے ایک آدمی ہوتا ہے۔ اگر وہ آدمی نہ ہو تو کتاب کبھی انقلاب نہیں لا سکتی۔ کارل مارکس کی کتاب “داس کیپٹال”ا کے پیچھے سے آپ لینن، اسٹالن اور مائو کو ہٹا دیں تو ممکن ہے اس کتاب کی تفہیم میں نہایت فکر انگیز مقالات لکھ دیے جائیں لیکن انقلاب خواب و خیال ہو کر رہ جائے گا۔
یہ صورت گر کچھ خوابوں کے از طاہر مسعود
بیشک ہم جن کرداروں کے بارے میں لکھتے ہیں وہ ہمارے دیکھے بھالے اور جانے پہچانے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ادب میں فلسفہ زندگی ہمیشہ کلیشے کے ساتھ نمایاں ہوتا ہے۔ اُردو کے کسی ادیب نے انسانی زندگی کو مجموعہ اضداد کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا کیوں کہ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ دو صداقتیں بہ یک وقت مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔ماحولیات میں مور بھی ہوتا ہے اور کوا بھی اور دونوں سچے ہوتے ہیں۔ ہاتھی کے خالق نے چیونٹی بھی تخلیق کی ہے۔ گھر کی دہلیز سے بیٹی رخصت کرنے والے باپ کی آنکھوں میں آنسو بھی ہوتے ہیں اور دل میں خوشی کے جذبات بھی اور ہم اسے منافق نہیں کہہ سکتے۔
اظہار اور گفتگو پر پابندی
اُردو کے ادیبوں نے زندگی کو کبھی اس زاویہ نگاہ سے نہیں دیکھا۔ ترقی پسند تحریک سے بھی چند اچھے افسانوں کو خارج کر دیں تو ”یتیم کے آنسو‘‘ اور ”بیوہ کی عید‘‘ کی سطح کے افسانے باقی رہ جائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں اظہار اور گفتار پر پابندی ہے، اس لیے ادیب اچھا نہیں لکھ پاتے۔ سوچتا ہوں جس دن یہ پابندی نہ رہی تو شاید یہاں سے ارسطو اور افلاطون کے زمانے جیسی بلند پایا تصانیف وجود میں آنے لگیں گی۔ ادیب حکومت کے خلاف لکھنا چاہتے ہیں، حا لاں کہ حکومت تو ایک چھوٹے درجے کی چیز ہے، بے معنی اور لا یعنی، ادیب توانسانی وجود کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کا ذکر بھی بیچ میں آ جائے تو اور بات ہے۔
اشفاق احمد کا افسانہ “گڈریا” جو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا
ایک عجیب قصّہ تھا۔ میں ان دنوں روم میں تھا اور یونیورسٹی میں اُردو پڑھانے پر مامور تھا۔ مدیر ”نقوش‘‘(محمد طفیل) نے اپنے خط میں افسانے کا تقاضا کیا۔ بڑی مصروفیت کے دن تھے۔ ذہن میں کہانی کا ایک خاکہ تھا، اسے میں نے لکھنا شروع کیا۔ مسودہ ہر وقت میرے پاس رہتا اور جہاں موقع ملتا، لکھنے بیٹھ جاتا۔ غرضے کہ کئی نشستوں کے بعد یہ تقریباََ مکمل ہو گیا. ارادہ تھا کہ آخری دو پیراگراف پوسٹ آفس میں لکھ لوں گا اور پھر اسے حوالہ ڈاک کر دوں گا لیکن وہاں جو کہانی ختم کرنے کی کوشش کی تو وہ مزید پھیلتی چلی گئی۔
مزید پڑھیے:ڈیجیٹل زندگی؛کوئی ادھڑی لیس اور ٹوٹا بٹن آپ کا متظر تو نہیں؟؟
یہاں تک کہ کھڑے ہو کر لکھتے لکھتے میرے گھٹنے شل ہو گئے۔ پھر میں اسے گھر لے آیا اور اختتام کو پہنچایا لیکن اس افسانے کو پوسٹ کرنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ اس کے اندر کئی جگہ جھول رہ گیا ہے۔ میں نے اپنے ایک دوست کو خط لکھا کہ وہ جا کر طفیل صاحب سے ملے اور ان سے افسانہ لے کر مجھے بھیج دے تاکہ میں اسے مزید بہتر بنا سکوں۔ دوست کا جواب آیا کہ طفیل صاحب تمہارے افسانے سے بے حد خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا اچھا افسانہ تو ہم نے اس سے پہلے پڑھا ہی نہیں۔ خیر، یہ افسانہ چھپا تو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اچھا ہوا کہ اسے دوبارہ نہیں دیکھا، ورنہ پتا نہیں اس افسانے کی کیا گت بنتی۔