متعدی مرض سرحدیں نہیں دیکھتے، مگر بارڈر پار لوگ اس سے نا انجان
متعدی مرض سرحدیں نہیں دیکھتے پیمانے نہیں ماپتے۔۔ یہ بس پھیلتے جاتے ہیں اور اپنی جڑوں سے کھوکھلا کرتے جاتے ہیں۔ اور اگر انہیں روکنے کے لیے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہیں کی جائے تویہ دنیا میں تباہی لے آتے ہیں۔ ایسے ہی ابو جہل کی قوم سے تعلق رکھنے والے چند افراد ہیں جو متعدی مرض کی طرح انسانیت کو تباہ کردیتے ہیں اور اگر ان کی جہالت کی روک تھام کے لیے سدباب نہیں کیا جائے تو وہ انسانیت کو بھی شرمسار کر دیتے ہیں۔
۔گزشتہ روز سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ وائرل ہورہی ہے جو خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے سفاک چہروں کی قلعی کھول رہی ہے۔جب پوری انسانیت ایک ہوچکی ہے یہ معاشرے کے چند ناسور اپنی جہالت سے دوسروں کی موت پر خوشیاں مناتے ہیں۔
اول دستے کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر اسامہ شہید
اس وقت پوری انسانیت کورونا وائرس جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے کہ جس سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ۔ بڑے بڑے سائنسدان اور ڈاکٹرز بھی حیران ہیں اور ایک سپر پاور کی حقیقت کو مان رہے ہیں۔ ایسے میں انسانی جذبے کی خدمت سے سرشار ڈاکٹرز لاکھوں افراد کواس متعدی مرض سے بچانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔
حال ہی میں گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے ڈاکٹر اسامہ ریاض جان کی بازی ہارتے ہوئے شہید ہوگئے اپنے پیشے سے مخلص ڈاکٹر اسامہ نے جرات اورقربانی کی لازوال مثال قائم کی اور اپنے ساتھیوں کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض تھی، ڈاکٹر اسامہ ریاض گلگت بلتستان میں مسافروں میں کورونا وائرس کی اسکریننگ پر معمور تھے-
2020 کے دورجہالت کے لوگ
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کچھ صارفین یا تو ایموجیز کی سائنس سے نا بلد ہیں یا پھر 2020میں بھی دور جہالت میں جی رہے ہیں ۔یا پھر سرحدوں کی ڈوروں میں آج بھی الجھے ہوئے یہ لوگ انسانیت کے نچلے درجے پر آچکے ہیں ۔ نیوز 18انڈیا کی جانب سے شہید ڈاکٹر اسامہ ریاض کے حوالے سے ایک آرٹیکل شیئر کیا گیا تھا ۔ جس پر کچھ صارفین کی جانب سے ان کی موت پر بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مسکراتے چہرے کی ایموجی کے ذریعے لائیک بھی کیا گیا ہے۔
مزہد پڑھیے: کورونا کاخوف،سیلف آئسولیشن میں کسے خود کو مصروف کھیں؟
کسی کی موت پر خوشی کا اظہار کرنا ایک المیہ ہے۔ خاص طور پر کسی دوسرے کی جان بچانے والے مسیحا کی ۔ یہ عمل اس معاشرے میں رہنے والے چند بے ضمیروں کی سفاکیت عیاں کر رہا ہے جو آج بھی سرحدوں کو انسانیت کے درجے سے اونچا رکھتے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ آج کے دور میں بھی ابو جہل کے چیلے کسی کی قربانی پر ایسے خوشیاں مناتے ہیں۔ دوسری جانب چند لوگوں نے ان کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔
مذہب دھرم ذات پات انسانیت سے مبر ا ہوتے ہیں ۔اور جہاں انسانیت کی تذلیل کی جائے وہاں دیوی دیوتاوں کے اوتار بھی نہیں اترتے۔انسانیت کی بقا کے لیے ہمیں اب بارڈرز کی حدود سے نکل کر سوچنا ہوگا!