عمران خان لاک ڈاؤن کے مخالف کیوں؟
کووڈ19 کی عالمی وبا نے دنیا بھر میں ایک خوف کی لہر پیدا کردی ہے۔ اور دنیا بھر میں اس سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کو اس کا علاج قرار دیا جارہا ہے۔ 188 ممالک تک پھیلنے والی اس وبا نے بڑےبڑے ترقی یافتہ ملکوں کو اس وقت اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔غرض ہر ملک میں مکمل لاک ڈاون ہے،جبکہ ووہان سے پھیلنے والی اس وبا پر چین نے کسی حد تک قابو پا لیا ہے۔
ایسے وقت میں کہ جب ہر سو افرا تفری کا عالم ہے اورپاکستان میں بھی صوبائی سطح پر لاک ڈاؤن بھی کردیاگیا ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے بھی وزیراعظم پر ملک گیر لاک ڈاؤن کے لیے زور ڈالا جارہا ہے مگر وزیر اعظم کی جانب سے مسلسل اس کی مخالفت میں خطاب کیے جا رہے ہیں۔
قوم سے خطاب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن یا کرفیو کا مطلب ہے کہ شہریوں کو گھروں میں مکمل بند کیا جائے، دیہاڑی دار طبقہ گھروں میں بند ہو جائے گا۔ لاک ڈاؤن کرنے سے ملک کے 25 فیصد غریب لوگوں کا کیا بنے گا؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ ازخود اپنے گھروں میں موجود رہیں۔ اگر پورا ملک لاک ڈاؤن کیا تو اور مشکلات پیدا ہوں گی، اگرکسی کو کھانسی،نزلہ یا زکام ہے تو خود کو آئسولیشن میں رکھے۔
لیکن وزیراعظم صاحب لاک ڈاون نہ ہونے کی صورت میں جو نقصان ہوگا اس کا کیا ہوگا؟ مہلک وائرس اپنی جڑیں ہر جگہ پھیلا چکا ہے جبکہ ماہرین صحت کی جانب سے اس سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاون کو واحد حل قرار دیا جارہا ہے
لاک ڈاؤن واحد حل؟
لاک ڈاؤن کیوں ضروری ہے اور اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ایک محتاط اندازے کے مطابق کہ اس وبا سے لاکھوں افراد موت کے منہ میں جا سکتے ہیں جبکہ احتیاط نہ کرنے کی صورت میں یہ گنتی کروڑوں کو بھی چھو سکتی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق اگر کوئی شخص کورونا وائرس سے انفیکٹڈ ہے اور اگر وہ دو ہفتوں کے لیے تنہائی میں بیٹھ جائے تواس کے پھیلاؤ کا تدارک ممکن ہے ۔جبکہ لاک ڈاون کی صورت میں وہ تما م کیسز سامنے آجائیں گے جو اس وائرس سے متاثر ہیں۔
اس صورت میں ان تمام مریضوں کااسپتالوں کے آئسولیشن وارڈز میں علاج ممکن ہو سکے گا اور آبادی سے وائرس کو ختم کیا جانا ممکن ہوسکےگا۔ چین نے بھی وائرس سے چھٹکارے کے لیے اسی پر عمل کیا۔ اور کامیاب رہا۔ اور آپ پھر بھی مخالفت کیے جا رہے ہیں جبکہ احتیاط میں تاخیر کی تو ہمارا حال اٹلی اور اسپین سے بھی زیادہ برا ہوگا۔
عالمی ادارہ صحت؛ پاکستان 122 ویں نمبر پر
عالمی ادارہ صحت کی فہرست کے مطابق اٹلی کاشمار دنیا کے بہترین ہیلتھ کئیر سسٹمز میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے جبکہ اسپین کا ساتواں نمبر ہے اور پاکستان اس فہرست میں 122ویں نمبر پر آتا ہے ۔ ایسے نظام کےساتھ وبا پھیلنے کے بعدآپ کہاں کھڑے ہوں گے اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔جبکہ احتیاط میں تاخیر کی وجہ سے اٹلی میں ہزاروں لوگ مر رہے ہیں جبکہ ادھر بھی لاک ڈاون کیا جا چکا ہے ۔
دوسری جانب برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک وینٹی لیٹرز کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں جبکہ نیویارک کے میئرنے بھی وینٹی لیٹرز کی کمی کا اعتراف کرلیا ہے۔ اور ہمارے پیارے ملک پاکستان میں معمول کی ضروریات کی لیے ہی وینٹی لیٹرز دستیاب نہیں تو ایسی صورتحال میں تو کیا ہی کہنا، جبکہ وینٹی لیٹرز کے مریضوں کی ریکوری کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اور ان کی عدم دستیابی کے باعث اموات میں اضافے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے
مزید پڑھیے: کرونا وائر سے چھٹکارا اور اسلام میں طہارت کی اہمیت
احتیاط میں تاخیر کہاں کی دانشمندی؟
لاک ڈاون کی صورت میں ہم اپنے لوگوں کو سسک سسک کر مرنے سے بچا سکتے ہیں مگر بھوک اور افلاس کے ڈر سے انہیں موت کے منہ میں چھوڑنا کہاںکی دانش مندی ہے ؟؟ احتیاط میں تاخیر کہیں کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو۔ ہمیں چین کی طرح مثالی بننے کے لیے اور ان کے جیسی حکمت عملی اپنانے کے لیے کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت کے بعد ہی ملک بھر میں لاک ڈاون لگا دینا چاہیے تھا۔
کیا ہم اللہ کا اپنے بندوں سے کیا گیا وعدہ بھول گئے ہیں کہ وہ کبھی اپنے بندو ں کو بھوکا نہیں سونے دے گا اور وہ تو پتھر میں رہنے والے کیڑے کو بھی اس کا رزق پہنچا تا ہے۔ بھوک سے لڑا جا سکتا ہے ، مگر وبائی مرض سے لڑنے کےلیے انسان کا زندہ رہنا ضروری ہے