بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ میں بھی واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ ہردور کے کچھ الگ اورمنفرد انداز ہوتے ہیں جو لوگوں کی توجہ کا لازمی مرکزبنتے ہیں۔ اگرانسانی سوچ کی بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس کی نئی سوچ کی بدولت ہم فرسودہ روایات کی زنجیروں سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پرانی روایات کوبدلنا کوئی جرم نہیں کیوںکہ یہ انسا ن کی ہی تو بنائی ہوتی ہیں۔ البتہ وہ انکی پابندی میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان روایات کو بھی زمانے کے مطابق تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔
اسی تناظرمیں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جونئی مثالیں قائم کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ اور یہی وہ اقدام ہوتے ہیں جو فوراََ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایسی ہی ایک مثال انڈیا کی ریاست کیرالہ میں دیکھنے میں آئی جب نئی نویلی دلہن نے اپنے شوہر سے حق مہر کے طور پرنقدی، زیورات جیسی قیمتی اشیاء ترک کرکے100 کتابوں کا مطالبہ کیا۔
حق مہرمیں نقد کی جگہ کتابیں
اعجازحکیم اوراجنا نظام کا نکاح اکتوبرمیں ہواتھا جس میں اجنا نے اپنےشوہرسے حق مہرمیں 100 کتابوں کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ابتدائی طور پردی گئی فہرست کے مطابق اعجاز صرف 97 کتابیں ہی جمع کر سکا۔ لیکن اب انکی تعداد 99 ہوگئی ہے۔ اس مطالبے نے سب کو حیران تو ضرور کیا لیکن اس کے منظرِعام پرآتے ہی لوگوں نے اس خیال کوخوب سراہا۔ تاہم دولہا دلہن نے اس بات کو خفیہ رکھا ہوا تھا لیکن انکے کچھ قریبی دوستوں نےاسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے وائرل کردیا۔
A woman from Kerala demanded 100 books as Mahar (dower given to the bride by the groom). Look at this lovely sight♥️
You can trust Keralites to be different and embrace education and rationality.#Kerala pic.twitter.com/rWoztSmawb— Arya (@thecuriouself) January 21, 2020
رپورٹ کے مطابق ان کتابوں میں قرآن، بائبل اور گیتا کے علاوہ خالد حسینی اورموراکامی کے ناول شامل ہیں۔ البتہ آخری کتاب میں انڈیا کا آئین شامل ہے جسکے ملتے ہی دلہن کی یہ خواہش مکمل ہو جائیگی۔
بظاہرتوایسی روایات قائم ہونے میں کوئی برائی محسوس نہیں ہوتی لیکن اس طرح کی سوچ معاشرےکوقبول کرنے میں تھوڑا وقت لگ جاتا ہے۔ بس ضرورت اس امرکی ہے کہ منفی پہلو اجاگر کرنے کے بجائے مثبت پہلو پر توجہ مرکوز کی جائے تونئی روایات کو باآسانی قبول کیا جا سکتا ہے۔