حالیہ بڑھتے ہوئے آٹے کے بحران نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بالخوصوص خیبر پختون خواہ کی عوام اس بحران سے شدید متاثر ہیں کیونکہ اس صورتِ حال نے روٹی کو انکے لئے نایاب بنا دیا ہے۔
اسی تناظر میں خیبر پختوں خواہ میں نان بائی ایسوسی ایشن کی جانب سے ہڑتال جاری ہے جس نے صوبہ بھر کے تندوروں کو ٹھنڈہ کر رکھاہے۔ بظاہر تو یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں معلوم ہوتی لیکن پختونخواہ کے رہائشیوں کے لئے یہ کسی ظلم سے کم نہیں۔
یقیناََ اپکے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرا ہوگا کہ آخر تندور بند ہونے سے روٹی کے نایاب ہونے کا کیا تعلق؟ گھر میں بھی تو روٹی بنائی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ جان کے اپکو تعجب ضرور ہوگا کہ خیبرپختون خواہ میں روٹی گھروں میں بنانے کا رواج نہیں۔ وہاں روٹی تندور سے ہی منگوائی جاتی ہے۔خاص طور پر شہری علاقوں میں یہ رواج عام ہے کہ وہاں گھروں میں آٹا رکھنے اور روٹی بنانے کونایاب سمجھا جاتا ہے۔
مہنگائی کی بڑہتی ہوئی لہر اور آٹے کا بحران
اس ہڑتال کے پیشِ نظر کے پی کے میں معمولاتِ زندگی شدید متاثرہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اپنے بچوں کو بغیر ناشتے کے اسکول بھیجنے پر مجبور ہیں۔ وہاں کے رہائشوں کا کہنا ہے کہ ہم مجبوراََ چاول کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔ لیکن آخر کب تک ہمیں اسی طرح گزارا کرنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس مسئلے کا جلد سے جلد کوئی خیر حل تلاش کرے تا کہ ہمارے بچوں کو روٹی کھانا نصیب ہو سکے۔
تا ہم واضح طور پر پختونخوا میں شدید سردموسم ہونے کے باعث وہاں گیس کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے رہائشی گھروں میں روٹی بنانے سے قاصر ہیں۔ کیوں کہ یا تووہاں گیس آتی نہیں یا پھراس کا پریشر انتہائی کم ہوتا ہے کہ بس چائے ہی بن سکے۔ لحاظہ اگر وہ چاہیں بھی تو گھر میں روٹی نہیں بنا سکتے۔
ہڑتال کا خاتمہ ناگزیر
حقیقی طور پر صوبے میں پانچ سے دس فیصد گھرانے ایسے ہیں جہاں روٹی گھروں میں ہی بنائی جاتی ہے۔ لیکن بیشتر لوگ تندورں کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس لئے اگر یہ ہڑتال جلد ختم نا ہوئی تو ان کے لئے ایسے ماحول میں گزارا کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
بظاہر نانبائیوں کی ہڑتال کی سب سے بڑی وجہ آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ اور حکومت کے ساتھ مزاکرات ناکام ہو جا نے کے باعث صوبہ بھر میں یہ احتجاج جاری ہے۔ ان حالات کی روشنی میں حکومت سے درخواست ہے کہ وہ پہلے تو آٹے کی قیمتیں کم کرے تا کہ نان بائیوں کی ہڑتا ل ختم ہو سکے۔
اس سے قبل تین مہینے پہلے بھی یہ ہی مسئلہ پیدا ہوا تھا جس کے نتیجے میں روٹی کی قیمت 15 روپے طے کر دی گئی تھی۔ اگر یہ مسئلہ جلدی حل نا ہوا تو ورکنگ خواتین کے مسائل میں اضافہ ہو جائگا اور انہیں مجبوراََ سلینڈرکے استعمال میں اضافہ کرنا پڑے گا۔