نکاح کے قاضی کا نام ذہن میں آتے ہی کسی مرد پیش امام کا خاکہ ہم سب کے ذہنوں میں گردش کرنے لگتا ہے جو با ریش شرعی حلیے میں ہاتھوں میں نکاح کا رجسٹر لیۓ مردانے میں موجود ہوتا ہے اور لڑکی سے ایجاب و قبول کے لیۓ اس کے محرم ولیوں سے ان کی رضا دریافت کرتا ہے جن کو لڑکی پہلے ہی نکاح کا حق تفویض کر چکی ہوتی ہے
مگر اب جس طرح پوری دنیا ایک تبدیلی کی لپیٹ میں ہے تو بھارت کے شہر بمبئي کی مایا نے بھی شمون سے نکاح کے لیۓ ایک علیحدہ روش اختیار کی مایا نے اپنی نکاح کی تقریب میں مرد قاضی کو بلانے کے بجاۓ خاتون قاضی کی خدمات حاصل کیں اور ان کے سامنے ایجاب و قبول کر کے نکاح کا مرحلہ طے کیا
دلہن کی خواہش کہ خاتون قاضی نکاح پڑھائے
مایا جو سماجی روابط کی ایک تنظیم میں مشیر کے طور پر ملازمت کرتی ہیں شادی سے قبل اپنے لکھے ہوۓ ایک مضمون میں اس خواہش کا اظہار کر چکی تھیں کہ ان کی خواہش تھی کہ ان کا نکاح کوئي عورت قاضي پڑھاۓ اس لیۓ اپنے نکاح کے موقعے پر انہوں نے بھارتیہ مسلم وومن اندولن نامی تنظیم سے رابطہ کیا
اس تنظیم نے ان کو خواتین قاضی فراہم کیۓ اس حوالے سے مایا کا یہ کہنا تھا کہ ان کے شوہر شمون نے بھی ان نئی روایت کو قائم کرنے میں ان کا ساتھ دیا اور ان کو خوشی ہے کہ اس طرح انہوں نے عورتوں کو ایک اہم سرگرمی میں آگے بڑھنے میں مدد فراہم کی
مایا کے اس نکاح نے مزہبی حلقوں میں اس حوالے سے بہت سارے سوال اٹھا دیۓ اور علما کے دو نقطہ نظر سامنے آۓ جس میں سے ایک گروپ اس عمل کی اس بنا پر مخالفت کر رہا ہے کہ ماضی میں اس قسم کی کوئي روایت موجود نہیں ہے
جب کہ دوسرے گڑوہ کا یہ ماننا ہے کہ نکاح گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کا نام ہے مزہب میں اس حوالے سے کوئی قید موجود نہیں ہے کہ قاضی کا لازمی طور پر عورت ہی ہونا ضروری ہے
بہرحال اس حوالے سے بحث ابھی جاری ہے اور دونوں مکتبہ فکر کے علما کسی ایک فیصلے پر نہیں پہنچ سکے ہیں