آج جب کتابوں کی الماری کے پاس سے گزرتے ہوۓ غیرارادی طور پر پروین شاکر کا شعری مجموعہ” خوشبو ” اٹھا لیا۔ بس پھر تو پورا دن ہی اس کے نام ہو گیا۔ پروین شاکر کا ایک گلہ جو اس نے پتہ نہیں کیا سوچ کے رب سے کیا تھا ذہن پر چھا سا گیا۔
اے خدا
میری آواز سے ساحری چھین کر
تو نے سانپوں کی بستی میں کیوں مجھ کو پیدا کیا
اس نظم کو پڑھتے ہی پاکستان کی بہت سی مظلوم حوا کی بیٹیوں کے چہرے آنکھوں کے آگے پھرنے لگے۔ کہیں خیال آیا قندیل بلوچ کا ،تو کہیں سامیہ شاھد کا ، جن کو عزت کے نام پر مارنے سے پہلے نام نہاد عزت داروں نے اس کی عزت ہی لوٹ لی۔ کہیں عنبرین کی سوختہ لاش نظر آتی ہے جس کا قصور اپنی دوست کی پسند کی شادی میں مدد کرنا تھا.
ان کے علاوہ سیکڑوں ایسی بھی ہونگی جو بغیر کسی خبر کی سرخی بنے چپ چاپ قبروں میں سوگئيں۔ زندہ رہنا تو ہر انساں کا حق ہے ، ہر جاندار کا حق ہے تو پھر ایسا کیوں ہوتا ہے؟؟؟؟
قندیل بلوچ اگر شوہر کے گھر میں بیٹھ کر چپ چاپ جوتے کھاتی رہتی تو وہ کسی کی عزت کے لۓ خطرہ نہ ہوتی؟؟ پھر تو کوئی اس کی جان نہ لیتا؟ یہ بیٹیاں جو آج بھائیوں،شوہروں اور معاشرے کی عزت کے ٹھیکیداروں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں انہوں نے مرنے سے پہلے فریاد تو کی ہو گی؟ بھائیوں کے سامنے گڑگڑائی تو ہوں گی؟ کیا انکو رحم نہ آیا ہو گا؟
کیا مرد ایسا کوئی کام نہیں کرتے جس کی بنیاد پر کوئی بہن، بیوی یا بیٹی ان کو قتل کر سکے؟
کیا آئین کی یہ شق غلط ہےکہ جس کی بنیاد پرقانون غیرت کے نام پر قتل کرنے والے سے نرمی کا حکم دیتا ہے؟ عید الاضحی کے تیسرے دن میاں چنوں میں ایک تین بچوں کی ماں کو اس کے شوہر نے غیرت کے نام پر پھانسی دے دی ۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ عورت اتنی حیا باختہ تھی تو پھر اس شوہر نے اس کے بطن سے یہ بچے کیوں پیدا کئے؟؟؟؟ وہ کون سے حالات تھے جن کی بنیاد پر ایک ماں نے اپنے بچوں سے بے وفائی کی؟؟؟؟ کیا ایک ماں بے وفا ہو سکتی ہے؟؟؟
بےنظیر بھٹو کا قتل بھی تو غیرت کی بنیاد پر ہوا تھا ناں؟
یہاں بھی وہی پرانی کہانی کہ مارنے والے مرد اور مرنے والی عورت ہے۔ جتنے سوال ذہن میں پیدا ہوتے جارہے تھے اتنی الجھن بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک جانب اگر یہ قتل نچلے طبقے کے کم پڑھے لکھےلوگ کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب سامیہ شاھد کو مارنے والے اعلی طبقےسے تعلق رکھنے والے بھی موجود ھیں۔
میں انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ اچانک اذان کی آواز نے چونکا دیا۔
حئی اللفلاح کی صدا نے میرے دماغ میں روشنی کی کرن چمکا دی اور مجھے اپنے ہر سوال کا جواب مل گیا۔
ایمان کا ایک اہم جز عقیدہ آخرت پر یقین بھی ہےکہ ہر انسان نے مرنے کے بعد اپنے اعمال کا حساب خود دینا ہو گا۔ اگر غیرتمند مرد اس بات کو سمجھ لیں تو کسی کی جان لینے کے بجاۓ اپنی آخرت سنوارنے کی فکر کریں۔
وطن کے ہیروز کو قوم کا سلام۔۔ سفید جھنڈے لہرا کر مسیحاؤں کو خراج تحسین