میرے سوہنے دیس کا تیکھا شہر کراچی،جس کا دامن ایک ماں کی طرح وسیع ہے، جس کے موسم ایک غریب کو اس کی غربت کا احساس دلاۓ بغیر گزر جاتا ہےنہ تو وہ سردی میں کمبل ڈھونڈتا ہے، اور نہ ہی گرمی میں اےسی کی پناہ۔ جہاں کے بھوکوں کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کوئی نہ کوئی مہربان، کہیں نہ کہیں دسترخوان بچھاۓ اس کا انتظار کر رہا ہو گا درحقیقت کراچی ایک شہر کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مزاج ایک فطرت کا نام بنتا جا رہا ہے جہاں اگر ایک جانب پوش علاقے کے رہائشی اعلی برانڈ کی دوڑ میں آگے نکل جانے کے لۓ بیتاب ہوتے ہیں تو دوسری جانب اسی پوش علاقے سے چند محلوں کے فاصلے پر کسی غریب کی بیٹی کی شادی کسی مہرباں کے توسط سے ہو رہی ہوتی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے ذیادہ چندہ یا امداد دینے والا شہر کراچی ہے جبھی تو کچھ نبض شناس لوگوں نےاس امداد کو بھتہ سمجھ کر جمع کرنا شروع کر دیا ہے. میرا سوہنا شہر کواچی، جس کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ، جس کی بسیں چھت تک مسافروں سے بھری ہوئیں اور جس کے مسافر اس بات پر مشکور نظر آتے ہیں کہ چلو چھت پر ہی بیٹھ کر گھنٹوں کی صعوبتوں کے بعد کم اذکم گھر تک تو پہنچیں گے
عبدالستار ایدھی بھی تو ایک کراچی والا تھا جس نے کراچی سے بے حد اور بے پناہ پیار کیا اور پھر جب کراچی والوں نے اپنا پیار ایدھی صاحب کی جھولی میں ڈالاتو ان کا دامن چھوٹا پڑ گیا۔ ایدھی صاحب کو جب ضرورت پڑی کشکول لے کر انہی کراچی والوں کی طرف نکل پڑےجنہوں نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا
لوگ کہتے ہیں کہ اب کراچی روشنیوں کا شہر نہیں رہا۔ میں کہتی ہوں کہ یہ تو اب بھی روشنیوں کا شہر ہے بس ہم نے اس کے پیار کی روشنیوں کو دیکھنا بند کر دیا ہےورنہ امجد صابری کا عظیم الشان جنازہ اس بات کا ثبوت تھا کہ کراچی والے پیار بھی جی بھر کر کرتے ہیں
کراچی کا خمیر محبت سے جڑا ہے جہاں ہر قومیت کا بندہ عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضر ہو کر اس شہر کی سلامتی کی دعا کرتا ہے جہاں آج بھی ہر قومی اور مذہبی تہوار بغیر کسی مسلک اور فرقے کے تفرقے کے بجاۓ یکساں احترام اور ہم آہنگی کے ساتھ منایا جاتا ہےجہاں یوم آذادی کے دن سب سے ذیادہ پرچم خریدے جاتے ہیں جہاں عیدمیلادالنبی اور محرم میں اتنا کھانا بنایا اور بانٹا جاتا ہے کہ کوئی غریب بھوکا نہیں سوتا
اے میرے رب میرے شہر کو نظر لگ گئی ہے اس پر سے یہ بری نظر دور فرما
آمین
وطن کے ہیروز کو قوم کا سلام۔۔ سفید جھنڈے لہرا کر مسیحاؤں کو خراج تحسین