شام کا دھندلکا دھیرے دھیرے پھیل رہا تھا وہ اپنے فلیٹ کے ٹیرس پر بیٹھی اس پھیلتی تاریکی کو اس خاموشی اور تنہائی کو محسوس کر رہی تھی آج کی صبح کی بھی شام ہو گئ بالکل اس کی ذندگی کی شام کی طرح ۔ لوگ ادھیڑ عمر کو زنرگی کی شام کہتے ہیں غلط ہی کہتے ہیں، ہر دن کا تو پھر نیا سویرا ہو تا ہے مگر بدقسمتی سے زندگی کی شام کا کوئی نیا سویرا نہیں ہوتا۔
کبھی وہ بھی ہر دن کے سویرے کے ساتھ نئے خواب دیکھتی تھی اس کے خوابوں میں بھی نئی امنگ ،نئی چہچہاہٹ ہوا کرتی تھی ۔ ہر شام اس کے نئے دن کا پیغام لاتی تھی ، مگر اچانک اس کے ساتھ ہونے والے حادثے نے اس کی زندگی کو بدل ڈالا۔
تمام ساتھی ،ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ بہتر رزلٹ کی نیت سے اس نے شہر کے نامی گرامی کوچنگ سنٹر میں داخلہ لیا جہاں کی تعلیم بورڈ میں اعلی رزلٹ کی ضمانت تھی ۔شروع شروع میں وہاں کا ماحول اور تعلیم اس کے لۓ بہت سازگار رہا دو مہینے کے بعد اس کے اساتذہ نے وقت کی کمی کے پیش نظر ایکسٹرا کلاسز کے آغاذ کی اہمیت پر زور دینا شروع کر دیا ۔مقابلے کی اس فضا میں اس نے بھی ان کلاسز کو وقت کی اہم ضرورت سمجھا
وہ ایک عام دن تھا آسمان پر بادل چھائے ہوۓ تھے آج اس کے سر نے ایک اہم ٹاپک پڑھانے کے لۓ صرف منتخب کردہ چار لڑکیوں کو بلوایا تھا مگر موسم کے تیور دیکھتے ہوۓ اس کی دوست نے جانے سے معزرت کر لی ۔ وہ گھر سے نکل چکی تھی آسمان نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا
وہ سینٹر پہنچی تو وہاں ایک ہو کا عالم تھا ۔ چوکیدار نے اس کے لۓ دروازہ کھولا ، وہ کلاس میں بیٹھ گئ تو چوکیدار نے اسے بتایا کہ سر آنے والے ہیں ، وہ مارکیٹ تک جا رہا ہے ۔ وہ خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے نوٹس دیکھنے لگی ،اچانک پیچھے سے دروازہ بند ہونے کی آواز نے اس کو چونکا دیا اس کے سر آگئے تھے انہوں نے باقی لڑکیوں کا پوچھا اور کتاب نکال کر پڑھانا شروع کر دیا مگر بار بار ان کے لفظ ان ہی کے لفظوں سے الجھ رہے تھے وہ حیرانی سے اپنے اس استاد کو دیکھ رہی تھی جس کی سریع البیانی کے سبھی مداح تھے.
پھر اچانک انہوں نے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس کو اپنے قریب کرنے کی جدوجہد کرنے لگے ، اس نے پیچھے ہٹنے کی جدوجہد کی ، اس کوشش میں اس کی کرسی پلٹ کر پیچھے جا گری اور وہ بھی نہ سنبھل پائی اور ڈھ گئی، استاد نے آج معلم کی مسند چھوڑ کر شکاری کی کرسی سنبھال لی جتنا خود کو بچاتی اس کا شکاری اتنا ہی اس کو بھیڑئیے کی طرح نوچتا رہا ۔ اس کی عزت، اس کے خوابوں اس کے وقار کو تار تار کرتا رہا ۔
مقصد کے حصول کے بعد اس بھیڑئیے نما انسان نے اس کی جانب کسی کو نہ بتانے کی دھمکی اچھالی ۔گھر واپسی کے راستے میں وہ سوچتی رہی کہ آسمان سے بارش نہیں اس کی بربادی کے دکھ پر آنسو برس رہے ہیں گھر آکر اس نے اس دھمکی کا پاس رکھ کر چپ سادھ لی البتہ اپنے خوابوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی پڑھائی چھوڑ دی پہلے آنے والے رشتے پر ہاں کہہ کر شادی کر لی
مگر آج جب اس کے بالوں میں شام کا دھندلکا پھیل رہا ہے وہ اپنی بیٹی کے کوچنگ سینٹر میں داخلے کے سوال پر سوچ رہی ہے کہ اجازت دے یا پھر اس کے خوابوں کو کرچی کرچی ہونے سے بچالے۔