This is a guest post submitted by Kamran Zubair. All views expressed in this article are of the contributor.
……پچھلی رات محلے کی پچھلی گلی سے
گزرتے ہوئے دو کمزور جسامت کی لڑکیوں نے آ گھیرا
مبارک ہو اسلامی جمہوریہ پاکستان
…..وہ دونوں جسم فروش تھیں
یہ کسی لاہور کی ہیرا منڈی نہیں
!بلکہ اِک سفید پوش محلے کی سیاہ گلی تھی
اُن میں سے اِک لڑکی بولی ” چار لوگوں کے پروگرام کے دو ہزار”
میں بولا “میں ایسا نہیں ہوں”
پھر بولی ” دو لوگوں کا پروگرام ایک ہزار میں”
میں بولا “میں ایسا نہیں ہوں”
پھر اُس نے اپنا نسوانی حسن چھلکایا اور بولی ” تو جوان ہے اکیلا ہی کافی ہے چل پانچ سو دے دینا”
میں بولا ” میں ایسا نہیں ہوں”
!اُس نے اصرار کیا زور دیا
میں پھر بولا ” میں ایسا نہیں ہوں”
……تو پھر اُس کی آنکھوں میں کھڑی مصنوعی ہوس اشکوں کی صورت ضائع ہونے لگی
وہ بولی ” تم ایسے ویسے نہیں ہو, کھانا ہی کھلا دو……کم از کم انسان تو ہو نا”
میں بولا “میں ایسا نہیں ہوں”
وہ بولی “آج کارخانے سے تنخواہ ملنی مگر سیٹھ نہیں آیا……بھیک ہی دے دو! چار لوگوں کا کھانا”
!مجھ پر غشی سی طاری تھی
میں بولا “میں ایسا نہیں ہوں”
وہ دونوں روتے ہوئے بولیں “ہم بھی ایسی نہیں ہیں دراصل بچپن میں جب ہم روٹی کو روتی تھیں تو گھر کا سامان ختم ہونے کے بعد ماں عزت بیچ کر روٹی خریدتی تھی”
میں دیکھتا رہا زمین نہیں پھٹی، آسمان نہیں گِرا مگر کچھ لڑکے مجھے اور اُن لڑکیوں کو ایسی عجیب سی نظر سے دیکھ رہے تھے کہ جیسے ابلیس آدم کو دیکھا کرتا
میں نے دس روپے کا اِک نوٹ اُس کے ہاتھ میں رکھا اور بولا ” معاف کرو *میں ایسا نہیں ہوں*”
!وہ بولی دس روپے میں تو چار لوگوں کی روٹی نہیں آئے گی
……سو وہ لڑکیاں اگلے گاہک کے پاس گئیں جس نے انہیں پیٹ بھر کھانا کھلایا
مگر
!اُس سے پہلے اُس ہوس کے اندھے نے اپنی پیاس بجھائی
اُن لڑکیوں کا گوشت
نوچا
چبایا
چاٹا
کھایا
…..دبایا اور پھینک دیا
میں گھر پہنچا اور اپنے ضبط پر فخر کرنے کے بعد بولا ” الحمدللہ! استغفراللہ! میں ایسا نہیں ہوں”
……..مگر مجھے پھر نیند نہیں آئی
!ازقلم:کامران زبیر آخٓر