میں نے ایک مفصل مطالعہ کیا ہے کہ COVID-19 سے ہماری معیشت کس طرح متاثر ہوگی اور آنے والے مہینوں میں ہمیں ہماری بقا کے کے لئےکیا اقدامات اٹھانا چاہئے۔لہذا میں وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ حکومت کی مالیاتی ٹیم اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی توجہ پاکستان کی معیشت پر کورونا وائرس کے سنگین منفی اثرات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کیونکہ صنعتوں ، ایئر لائنز اور قومی آمدنی پیدا کرنے والے تمام ذرائع تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور پاکستان پر بدترین عالمی معاشی حالات کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے جو نائن الیون کے بعد سے کہیں زیادہ خوفناک ہوں گے۔
یں یہ اپنا قومی فریضہ محسوس کرتا ھوں اور اپنی قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں COVID-19 کے ذریعہ معاشی تباہی کی طرف دھکیل دیا جارہا ہے۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ پاکستان کو بروقت اور موثر اقدامات کرنے چاہئے جو اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو کم کرنے کے لیئےفوری طور پر اٹھائے جاسکتے ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم کو ایک خط بھی لکھا ہے اور میں اس اقدام پر اجتماعی حمایت کے لئے ایوان بالا میں ایک قرارداد بھی پیش کروں گا.
کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت ضرورت مند افرار کے لئے معاشی پیکیج کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئی ہے. قرضوں کی ادائیگی اور معاشی اصلاحات کو یقینی بنانے کے لئے عالمی قرض دہندگان کے ساتھ پہلے سے طے شدہ باہمی اصلاحات کے عمل کو روک دیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مشورے سے ملک لاک ڈاؤن کی طرف مجبور ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی معیشت کو آسان بنانے کے لیے شرح سود کو کم وقت میں 24 اپریل کو 13.25 فیصد سے کم کرکے 11 فیصد اور پھر 16 اپریل 2020 کو 11 فیصد سے کم کرکے 9 فیصد کردیا ہے۔ سرمایہ کاروں کو مراعات کی پیش کش کی جارہی ہے لیکن یہ کارگر ثابت نہیں ھورہا .موجودہ مشکل صورتحال میں تاجر برادری کے ردعمل میں مزید تاخیر کی توقع ہے اور ہم COVID-19 کے مسلسل منفی اثر کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کی توقع نہیں کرسکتے ہیں۔
COVID-19 کے نتیجے میں ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری معیشت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، جس سے بڑے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار خاص طور پر لیکویڈیٹی ایشوز کا شکار ہیں۔ چھوٹے کاروباروں کے دیوالیہ ہونے کا امکان ہے. مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ ہماری بے روزگاری اور افراط زر کی شرح اور بھی زیادہ ھو رہی ہے۔ بے روزگاری اور قیمتوں میں اضافے سے ملک میں بدامنی پھیل رہی ہے اور حکومت کے لئے بھی امن و امان کی سنگین صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ ایسے حالات میںہم بین الاقوامی قرض دہندگان کے ساتھ اصلاحات کے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرسکیں گے. ان حالات نے بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کرنے کی ہماری صلاحیت کو شدید متاثر کردیا ہے اور ہماری صنعتی پیداوار کو ایک دھچکا پہنچا ہے. حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں.برآمدات, سیاحت اور دیگر سیکٹر کی آمدنی کم ہوتی جارہی ہے.
بیرون ملک مقیم پاکستانی برادری بھی مشکلات کا شکار ہیں. ہماری ورک فورس کی وطن واپسی کی وجہ سے صورتحال مایوس کن ہو رہی ہے۔اب صرف زرعی شعبہ باقی ہے اور اسے آج بھی نظرانداز کیا جاتا ہے. در حقیقت اب زراعت کا شعبہ ہماری آخری امید ہے. میری تجویز یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ زرعی پیداوار کو یقینی بنانے کے لئے کسانوں کو مراعات ملنی چاہئے۔ میں اس کے بارے میں تفصیل سے لکھوں گا ، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وفاقی وزارت زراعت اور صوبائی حکومتوں کو بھی ایک قابل عمل منصوبہ بنانا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم COVID-19 کی وجہ سے ہنگامی حالات کا سامنا کر رہے ہیں جو ممکنہ طور حکومت کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں. COVID-19نے ہماری معیشت کا پہیہ روک کر رکھ دیا ہے۔ میرے خیال میں ھمیں بین الاقوامی قرض کی ادائیگی کو موخر اور ممکنہ طور پر قومی قرض معاف کروانے کی ضرورت ہے. یہ ‘فورس میجور’ قانونی شق کے ذریعے ممکن ہے. میری نظر میں ‘فورس میجور’ قائم کرکے آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، یو ایس ایڈ وغیرہ قانونی طور پر ان ادائیگیوں کوموخر اور ہمارے قرضوں کو تحریری طور پر معاف کرنے کے پابند ہوں گے۔
فورس میجور شق عام طور پر قدرتی آفات ، زلزلے یا وبائی بیماری ، جنگ یا دہشت گردی کے حملوں ، یا حکومت کی پالیسی یا قانون میں تبدیلی جیسے معاملات میں لاگو ہوتی ہے .عام طور پر معاہدوں میں اس فورس میجرج شق کو شامل کرنا لازمی ہے. اگر عالمی قرض دہندگان ہمارے حقیقی حالات سے متعلق دعوے کو مسترد کرتے ہیں تو ہمیں مجاز بین الاقوامی عدالت کے سامنے ‘فورس میجور’ کے معاملے کی شق کو لاگو کرنا چاہئے اور بین اقوامی شہرت یافتہ وکیل کے ذریعہ اس کی صداقت کو ثابت کرنا چاہئے۔ تاہم ، یہ ضروری ہے کہ پہلے ہمیں اس مسئلے کی مکمل جانچ پڑتال اور تحقیقات کرنی چاہئے۔ ہمیں اچھی طرح سے تیار کردہ تخمینے تیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر وبائی بیماری ایک طویل مدت تک جاری رہتی ہے تو معاشی بحالی میں بہت زیادہ وقت لگے گا . لہذا ہمیں سود کی شرح کو معافکروانے یا 10 سال بعد ادائیگی کا معاہدہ کرنا چاہئے. اپنے دلائل کی حمایت میں ہمیں COVID-19 کو کم کرنے کے لئے کیے گئے اقدامات اور ان وبائی امراض کی وجہ سے مالی بوجھ کے قطعی اور قابل تصدیق ڈیٹا کی ضرورت ہوگی۔ ہماری قوم بے روزگاری ، قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کا شکار ہے. ماضی میں ہمیں ہر بار آئی ایم ایف کے سامنے جھکنا پڑا۔ ہمیں قانونی جنگ کا انتخاب کرنے سے پہلے اپنے قرض دہندگان کے ساتھ ‘فورس میجور’ صورتحال پر باہمی اتفاق رائے کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ (اگرچہ ہمارے پاس ایک مضبوط مقدمہ ہے). اس سب سے پہلے ہمیں اپنے معاہدوں کی جانچ پڑتال کرنی ہوگی کہ ہمارے معاہدوں میں ‘فورس میجور’ شق موجود ہے یا نہیں۔
ایک آخری کوشش کے طور پر ہم Doctrine/Principle of Frustration نظریہ بھی استعمال کرسکتے ہیں. اس نظریہ کے تحت غیر متوقع حالات کسی معاہدے کے نفاذ پر اثر انداز ھو سکتے ھیں اور فریقین کو کسی بھی قانونی یا مالی ذمہ داری سے استثنیٰ کر دیا جاتا ھے . اس سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے. مجھے یقین ہے کہ متعلقہ حکام کی جانب سے میری تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا. اور ھم اسے اپنے غیر ملکی قرض معاف کرنے کے لیے استعمال کریںگے.میں اس اہم نکتے کو سینیٹ میں بھی لاؤں گا تاکہ ہم ایک قرارداد پیش کرسکیں اور اپوزیشن لیڈر اور قائد ایوان سے بھی مشاورت کروں گا. میں تمام بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ بیرون ملک اپنے اثر و رسوخسے پاکستان کی مدد کریں تاکہ ہمارے قرضوں کو معاف کرایا جاسکے۔ یہ میرے اپنے خیالات ہیں اور ضروری نہیں کہ میری پارٹی کے خیالات کی نمائندگی کریں۔
!!طاہر شاہ کا نیا گانا”فرشتہ”میوزک انڈسٹری میں تہلکہ،کورونا کو بھی خطرہ
۔